Wednesday, 2 September 2020

تمہیں بھی علم ہو اہل وفا پہ کیا گزری

تمہیں بھی علم ہو اہلِ وفا پہ کیا گزری
تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا نہ سہی
ہمارے دامنِ صد چاک کو رفو تو کرو
نگارِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی
ہمارے خانۂ ظلمت کے رو برو تو کرو
طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے اُفق کو لہو لہو تو کرو

شکیب جلالی

No comments:

Post a Comment