تمہیں بھی علم ہو اہلِ وفا پہ کیا گزری
تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا نہ سہی
ہمارے دامنِ صد چاک کو رفو تو کرو
نگارِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی
طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے اُفق کو لہو لہو تو کرو
شکیب جلالی
No comments:
Post a Comment