وقت کے ساتھ بدلنے کی جنہیں عادت ہو
ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو
جیسے دیوار میں در، وقفۂ آزادی ہے
کیا خبر، جبر و ارادہ میں وہی نسبت ہو
روزمرہ کے مضافات میں ہم گھوم آئیں
آدمی روز کی روٹی پہ ہی ٹل جاتا ہے
اور بیچارے پہ کیا اس سے بڑی تہمت ہو
ایک رفتار میں یوں وقفہ بہ وقفہ چلنا
کیا عجب وقت کو چلنے میں کوئی دقّت ہو
سرخ منقار کا میں سبز پرندہ تو نہیں
کیوں نہ تکرار کی خُو میرے لیے زحمت ہو
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment