Thursday, 3 September 2020

یہ اور بات پرندے شجر سے باہر ہیں

یہ اور بات پرندے شجر سے باہر ہیں
شکاریوں کو مگر ان کے گھر میسر ہیں
مجھے نہیں، مِری پرواز روک سکتا ہے
کہ میں گرفت میں اسکی نہیں، مِرے پر ہیں
کئی رُتوں سے مِری تشنگی پکارتی ہے
کہاں ہیں ابر تِرے، کس طرف سمندر ہے
گماں نہ کر کہ ہمیں مفلسی نے اُکسایا
ہم اس لیے ہیں مقابل تِرے، کہ حق پر ہیں
جو تُو ملا ہے تو اب کیا کہیں تجھے، ورنہ
کرم بھی یاد ہیں تیرے، ستم بھی ازبر ہیں
تِرا مکان ہے خستہ تو مت جھکا سر کو
ہمیں بھی کون سے قصرِ شہی میسر ہیں
منافقت کو وہی مصلحت کہیں رزمی
جو لوگ دوشِ ہوا پر سفر کے خوگر ہیں

خادم رزمی

No comments:

Post a Comment