یہ اور بات پرندے شجر سے باہر ہیں
شکاریوں کو مگر ان کے گھر میسر ہیں
مجھے نہیں، مِری پرواز روک سکتا ہے
کہ میں گرفت میں اسکی نہیں، مِرے پر ہیں
کئی رُتوں سے مِری تشنگی پکارتی ہے
گماں نہ کر کہ ہمیں مفلسی نے اُکسایا
ہم اس لیے ہیں مقابل تِرے، کہ حق پر ہیں
جو تُو ملا ہے تو اب کیا کہیں تجھے، ورنہ
کرم بھی یاد ہیں تیرے، ستم بھی ازبر ہیں
تِرا مکان ہے خستہ تو مت جھکا سر کو
ہمیں بھی کون سے قصرِ شہی میسر ہیں
منافقت کو وہی مصلحت کہیں رزمی
جو لوگ دوشِ ہوا پر سفر کے خوگر ہیں
خادم رزمی
No comments:
Post a Comment