دشت ہے دریا ہے خیمہ ہے کوئی
اور اس خیمے میں پیاسا ہے کوئی
آنکھ میں آنسو لیے ہنستا ہوا
شہر میں اک شخص مجھ سا ہے کوئی
پھر پلٹ آیا ہوں اپنے آپ میں
وہ اگرچہ "خامشی" ہی کیوں نہ ہو
اب مِرے گھر میں بھی رہتا ہے کوئی
ایک سوکھے پیڑ کی بے پات شاخ
باد و باراں ہے، پرندہ ہے کوئی
مدتوں کے بعد یہ پھر اس کا خط
تم نے رزمی خواب دیکھا ہے کوئی
خادم رزمی
No comments:
Post a Comment