Thursday, 3 September 2020

دشت ہے دریا ہے خیمہ ہے کوئی

دشت ہے دریا ہے خیمہ ہے کوئی 
اور اس خیمے میں پیاسا ہے کوئی
آنکھ میں آنسو لیے ہنستا ہوا
شہر میں اک شخص مجھ سا ہے کوئی
پھر پلٹ آیا ہوں اپنے آپ میں
پھر مِرے اندر سے بولا ہے کوئی
وہ اگرچہ "خامشی" ہی کیوں نہ ہو
اب مِرے گھر میں بھی رہتا ہے کوئی
ایک سوکھے پیڑ کی بے پات شاخ
باد و باراں ہے، پرندہ ہے کوئی
مدتوں کے بعد یہ پھر اس کا خط
تم نے رزمی خواب دیکھا ہے کوئی

خادم رزمی

No comments:

Post a Comment