Wednesday, 2 September 2020

چھپا ملا تھا جو اک خواب کی رداؤں میں

چھپا ملا تھا جو اک خواب کی رداؤں میں
وہ شہر میں نظر آیا کہیں، نہ گاؤں میں
الم نصیبو! یہ دکھ سارے بھول جاؤ گے
بڑا سکوں ہے محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں
کہیں پہ دھوپ میں صورت تِری نظر آئی
جھلک ملی ہے کبھی بھاگتی گھٹاؤں میں
نہ اب وہ گالوں میں ہنستے ہوئے گلاب رہے
نہ اب وہ کاٹ رہی ہے تِری اداؤں میں
مِری طرح کے جنوں پیشہ بھی ہوئے نایاب
تِری طرح بھی نہیں کوئی دلرباؤں میں
یہ کس نے شہر میں تنہائیاں بچھا دی ہیں
یہ کس کو ڈھونڈنے آئے ہیں لوگ گاؤں میں
خود اٹھ کے ساتھ چلا آئے وصل کا سورج
ہو کوئی بات بھی اب ہجر کی دعاؤں میں
ملا ہے آج جو اک اجنبی کی صورت میں
یہ شخص تھا کبھی اس دل کے آشناؤں میں
ذلیل کر کے جنہیں آپ نے نکال دیا
وہ اپنا نام چلے لکھنے پارساؤں میں

احمد فواد

No comments:

Post a Comment