تیری یادوں سے جہاں عشق مسلسل ہو گا
غم کا مسئلہ بھی مِرے یار وہیں حل ہو گا
مخملی ہونٹ، حسیں جسم، سنہری زلفیں
چاند بھی آج تجھے دیکھ کے پاگل ہو گا
روز میں عشق پہ لکھتا ہوں ادھوری نظمیں
تیرے ہاتھوں پہ میرے نام کی مہندی ہو گی
اور آنکھوں میں مِرے نام کا کاجل ہو گا
سب کے حصے میں تِری دید کا جام آۓ گا
🎕میرے حصے میں تِری یاد کا جنگل ہو گا
یہ نہ سوچا تھا کہ دل ٹوٹ کے چاہے گا تجھے
اور تُو میری نگاہوں سے بھی اوجھل ہو گا
اور کیا عشق کا احوال لکھیں گے حمزہ؟
درد جب میرے خیالات کی دلدل ہو گا
حمزہ نقوی
No comments:
Post a Comment