کچھ ایسا پاسِ غیرت اٹھ گیا اس عہدِ پر فن میں
کہ زیور ہو گیا طوقِ غلامی اپنی گردن میں
شجر سکتے میں ہیں خاموش ہیں بلبل نشیمن میں
سدھارا قافلہ پھولوں🎕 کا سناٹا ہے گلشن میں
گراں تھی دھوپ اور شبنم بھی جن پودوں کو گلشن میں
زمانہ میں نہیں اہلِ ہنر کا قدر داں باقی
نہیں تو سیکڑوں موتی ہیں اس دریا کے دامن میں
یہاں تسبیح کا حلقہ،۔۔ وہاں زنار کا پھندا
اسیری لازمی ہے مذہبِ شیخ و برہمن میں
اڑا کر لے گئی بادِ خزاں اس سال اس کو بھی
رہا تھا ایک برگِ زرد باقی میرے گلشن میں
چکبست لکھنوی
(برج نرائن چکبست)
No comments:
Post a Comment