Wednesday, 2 September 2020

مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے

زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مِرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
یہ بیکسی بھی عجب بیکسی ہے دنیا میں
کوئی ستائے ہمیں، ہم ستا نہیں سکتے
کشش وفا کی انہیں کھینچ لائی آخر کار
یہ تھا رقیب کو دعویٰ وہ آ نہیں سکتے
جو تُو کہے تو شکایت کا ذکر کم کر دیں
مگر یقیں تِرے وعدوں پہ لا نہیں سکتے
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے

چکبست لکھنوی
(برج نرائن چکبست)

No comments:

Post a Comment