زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مِرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
یہ بیکسی بھی عجب بیکسی ہے دنیا میں
کشش وفا کی انہیں کھینچ لائی آخر کار
یہ تھا رقیب کو دعویٰ وہ آ نہیں سکتے
جو تُو کہے تو شکایت کا ذکر کم کر دیں
مگر یقیں تِرے وعدوں پہ لا نہیں سکتے
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے
چکبست لکھنوی
(برج نرائن چکبست)
No comments:
Post a Comment