نظریں ملیں تو زیست کے نقشے بدل گئے
پلکیں جھپک نہ پائیں، کئی دور چل گئے
تا زندگی چلے ہیں سلامت روی سے ہم
پروانے جلد باز تھے، جلدی میں جل گئے
ان کو تمہارے شہر کے پتھر نہ چھو سکے
اس میکدے میں تم نے جو تقسیم کی شراب
ساغر اسی شراب کے دنیا میں چل گئے
واعظ کے ہم ذرا بھی رہینِ کرم نہیں
ساقی نے جب سنبھالا ہمیں، ہم سنبھل گئے
وہ سُرمۂ بصیرتِ اہلِ چمن بنے
جو گل تمہارے پاؤں کے نیچے کچل گئے
خود ہم نے ان کی بزم میں دیکھا ہے یہ علیم
اکثر رقیب لے کے ہماری غزل گئے
علیم عثمانی
No comments:
Post a Comment