اترے گی نہ کیسے تِری تصویر غزل میں
بلقیس کو آنا ہے سلیماں کے محل میں
دیدار کے پیاسوں کو پتہ ہی نہیں شاید
اک چیز تصور ہے نظارے کے بدل میں
ان عقل کے ماروں پہ ہنسی آتی ہے مجھ کو
ہے تجربہ کچھ اور روایات ہیں کچھ اور
ہم کو نہ ملا کوئی مزہ صبر کے پھل کا
ہم اہلِ قلم امن پسندوں میں ہیں، ورنہ
تلوار سے کیا کم ہے قلم جنگ و جدل میں
ان آنکھوں کے کاجل کو بہائیں گے کہاں تک
اب آپ بھی آ جائیے میدانِ عمل میں
حالات کے الزام علیم آپ نہ دیجئے
حالات کا کیا دخل ہے اس زلف کے بَل میں
علیم عثمانی
No comments:
Post a Comment