دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت
استادہ ہیں ہم باغ میں شمشاد کی صورت
یاد آتی ہے بلبل پہ جو بے داد کی صورت
رو دیتا ہوں میں دیکھ کے صیاد کی صورت
جو گیسوئے جاناں میں پھنسا، پھر نہ چھٹا وہ
کھینچیں گے مِرے آئینۂ رخسار کی تصویر
دیکھے تو کوئی مانی و بہزاد کی صورت
گالی کے سوا ہاتھ بھی چلتا ہے اب ان کا
ہر روز نئی ہوتی ہے بے داد کی صورت
کس طرح امانت نہ رہوں غم سے میں دلگیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
امانت لکھنوی
No comments:
Post a Comment