Wednesday, 2 September 2020

دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت

دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت
استادہ ہیں ہم باغ میں شمشاد کی صورت
یاد آتی ہے بلبل پہ جو بے داد کی صورت
رو دیتا ہوں میں دیکھ کے صیاد کی صورت
جو گیسوئے جاناں میں پھنسا، پھر نہ چھٹا وہ
ہیں قید میں پھر خوب ہے میعاد کی صورت
کھینچیں گے مِرے آئینۂ رخسار کی تصویر
دیکھے تو کوئی مانی و بہزاد کی صورت
گالی کے سوا ہاتھ بھی چلتا ہے اب ان کا
ہر روز نئی ہوتی ہے بے داد کی صورت
کس طرح امانت نہ رہوں غم سے میں دلگیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت

امانت لکھنوی

No comments:

Post a Comment