Wednesday, 2 September 2020

مے نہیں یار نہیں شیشہ نہیں جام نہیں

لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں
مے نہیں یار نہیں شیشہ نہیں جام نہیں
کب مجھے یاد رخ و زلف سیہ فام نہیں
کوئی شغل اس کے سوا صبح سے تا شام نہیں
بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بول
دیکھ لو دور سے کھانے کے یہ بادام نہیں
حلقۂ زلف بتاں میں ہے بھری نکہت گل
اے دل اس لام میں بوئے گل اسلام نہیں
ابتدا عشق کی ہے دیکھ امانت ہشیار
یہ وہ آغاز ہے جس کا کوئی انجام نہیں

امانت لکھنوی

No comments:

Post a Comment