لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں
مے نہیں یار نہیں شیشہ نہیں جام نہیں
کب مجھے یاد رخ و زلف سیہ فام نہیں
کوئی شغل اس کے سوا صبح سے تا شام نہیں
بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بول
حلقۂ زلف بتاں میں ہے بھری نکہت گل
اے دل اس لام میں بوئے گل اسلام نہیں
ابتدا عشق کی ہے دیکھ امانت ہشیار
یہ وہ آغاز ہے جس کا کوئی انجام نہیں
امانت لکھنوی
No comments:
Post a Comment