Wednesday, 2 September 2020

ہونٹ کی مہر ہیں ہم پاؤں کی زنجیر ہیں ہم

ہونٹ کی مہر ہیں ہم پاؤں کی زنجیر ہیں ہم
زندگی دیکھ تِرے خواب کی تعبیر ہیں ہم
زینتِ گنبد و محراب نہ ہم روحِ کتاب
سنگِ مینار کی مٹتی ہوئی تحریر ہیں ہم
ہم شرافت ہیں، ہمیں کون سراہے گا اب
اپنے اجداد کی ہاری ہوئی جاگیر ہیں ہم
جیسے جی چاہے ہمیں دیکھ سوالات نہ کر
اپنی دیوار پہ لٹکی ہوئی تصویر ہیں ہم
تم وہ آیت کہ سمجھنے سے جسے سب قاصر
جس کو پڑھتا ہی نہیں کوئی وہ تفسیر ہیں ہم
ہم تواریخ ہیں قصے ہیں حوالے بھی ہیں
فخرِِ تسبیح ہیں ہم، جرأتِ شمشیر ہیں ہم
ہم دِوانوں کو حقارت کی نظر سے مت دیکھ
اے محبت! تِرے کشکول کی تقدیر ہیں ہم

مظفر ابدالی

No comments:

Post a Comment