اسے بھی بے خبر رکھا گیا ہے
ہمارے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے
کبھی فرصت ملے تو پڑھ ہی لینا
کتاب دل بڑی پُر ماجرا ہے
گریزاں تھا مِرا وجدان مجھ سے
سوالاً جانبِ افلاک دیکھا
جواباً ایک اونچا قہقہہ ہے
ملالِ وصل کے دن عارضی ہیں
نشاطِ غم کا عالم دیرپا ہے
میں اپنے آپ سے واقف نہیں ہوں
تُو کہتا ہے کہ مجھ کو جانتا ہے
گزر جا، جان سے اپنی گزر جا
تُو راہِ شوق میں بھی سوچتا ہے
فرتاش سید
No comments:
Post a Comment