Wednesday, 2 September 2020

ابھی جنگ جاری رہے گی

جنگ ایک المیہ

ابھی جنگ جاری رہے گی
کہ اپنے لہو میں حرارت وہی ہے
یہ مذہب بھی اپنا وہی ہے
زمیں کی قبا ایک ہے جس پہ دو حصے ایسے بنے ہیں
وہاں تم کھڑے ہو
یہاں میں کھڑا ہوں
ابھی جنگ جاری رہے گی
کہ بچوں کو اپنے
سکھایا ہے ہم نے
لہو کی وہ قیمت جو ماں باپ پہلے سے طے کر چکے ہیں
چُکانا پڑے گی
وہ معصوم بچے جو یہ جانتے تک نہیں ہیں
کہ سرحد پہ دشمن ہمارا، ابھی دودھ کی بوتلیں چھوڑ کر آ گیا ہے
وہ کیوں لڑ رہا ہے
کسی ایک نے یہ کہا کہ ہمیں تو یہاں
میرے اسی باپ کی ضد نے لا کر کھڑا کر دیا ہے
جو یہ چاہتا ہے کہ اپنی لحد میں پہنچنے سے پہلے
زمیں کی حدوں کا
وہ بچوں کی خاطر تعین کرے
تاکہ قبروں پہ اپنے ہی بچوں کے ناموں کی تختی لگے
ابھی جنگ جاری رہے گی
کہ دو سرحدوں سے پرے کچھ وہ بیٹھے ہوئے گدھ
ایک ہی وقت میں
ایک ہی جسم کی دونوں آنکھوں کو کھانے کو
تیار بیٹھے ہوئے ہیں
ابھی جنگ جاری رہے گی
کہ سرحد کے اس پار بیٹھے ہوئے گدھ
سبھی سو رہے ہیں، مگر دیکھتے ہیں
انہیں صبح کے ناشتے تک پہنچنے میں اک رات کا فاصلہ ہے
ابھی جنگ جاری رہے گی

راشد فضلی

No comments:

Post a Comment