Friday, 4 September 2020

منزل کو دشوار سمجھ کر ڈرتا ہوں

 منزل کو دشوار سمجھ کر ڈرتا ہوں

پھر بھی پار میں شوق کی سرحد کرتا ہوں

رستہ رستہ اپنی ذات کے صحرا میں

جانے کس کی یاد میں روز بکھرتا ہوں

رات کی چپ میں اکثر ایسا ہوتا ہے

اپنی ہی تصویر سے باتیں کرتا ہوں

وہ بھی میری خاطر روپ بدلتا ہے

میں بھی اس کی خاطر روز سنورتا ہوں

ذات بھی جیسے ایک بھیانک جنگل ہے

جب بھی ڈرتا ہوں میں خود سے ڈرتا ہوں


زمان کنجاہی

No comments:

Post a Comment