منزل کو دشوار سمجھ کر ڈرتا ہوں
پھر بھی پار میں شوق کی سرحد کرتا ہوں
رستہ رستہ اپنی ذات کے صحرا میں
جانے کس کی یاد میں روز بکھرتا ہوں
رات کی چپ میں اکثر ایسا ہوتا ہے
اپنی ہی تصویر سے باتیں کرتا ہوں
وہ بھی میری خاطر روپ بدلتا ہے
میں بھی اس کی خاطر روز سنورتا ہوں
ذات بھی جیسے ایک بھیانک جنگل ہے
جب بھی ڈرتا ہوں میں خود سے ڈرتا ہوں
زمان کنجاہی
No comments:
Post a Comment