کچھ تو ہو درد کی لذت ہی سہی
تیری الفت میں اذیت ہی سہی
درد کو درد نہ جب تو سمجھے
بد گمانی تِری عادت ہی سہی
دل مہجور میں ارمانِ وصال
نہ سہی دید کی حسرت ہی سہی
بتکدہ چھوڑنے والے تو نہ تھے
خیر ملتی ہے تو جنت ہی سہی
دل کو تھا خاک میں ملنا سو ملا
دیکھنے والوں کو عبرت ہی سہی
اس ستمگار نے کر لی توبہ
اے فلک ہاں کوئی آفت ہی سہی
کوئی جلوہ نظر آئے شاید
ٹکٹکی بندھنے کی عادت ہی سہی
ہیں کسی جلوے کی آنکھیں مشتاق
کچھ کم و بیش یہ غفلت ہی سہی
عشق کی بولتی تصویر ہے شوق
دیکھنے والوں کو حیرت ہی سہی
رینا شوق
پنڈت جگموہن ناتھ
No comments:
Post a Comment