Friday, 21 January 2022

پلڑا ہو جس کا ایک ترازو کہاں گیا

 پلڑا ہو جس کا ایک، ترازو کہاں گیا

تھا جس کے ہاتھ میں وہی سادھو کہاں گیا

تُو ہی طلسمِ زیست کا حاصل ہے میرے دوست

اس دشتِ بے کراں میں وہ آہو کہاں گیا

آنکھیں لگا رہی ہیں تماشے عجب عجب

منظر کشانِ شوق ارے تُو کہاں گیا

بدلا ہوا ہے آج یہ اندازِ گفتگو

معصوم سا، شریر سا، دلجُو کہاں گیا

مسکان تُو نے چہرے پہ آخر سجا ہی لی

"پر دل سے درد، آنکھ سے آنسو کہاں گیا"

دھیما سا لہجہ، شیریں سخن اور خوش گُلو

ہائے سرور آفریں جادو کہاں گیا

اب روح ڈھونڈتی ہے چراغِ مزارِ دل

اور پوچھتی ہے مٹّی کا مادھو کہاں گیا

خاروں کی نوک نوک پہ آخر لہو ہے کیا؟

جھونکا اڑا کے پھول کی خوشبو کہاں گیا

مطلب پرست لوگ مجھے کر رہے سلام

آنکھیں نہیں رہیں، مرا بازو کہاں گیا

اے تیرگئ بخت کہاں جھلملاہٹیں

شب بھر جو ضوفشاں رہے، جگنو کہاں گیا

کتنا اداس اداس ہے آئینہ بھی علیم

شرمائے جس کا عکس بھی مہ رُو کہاں گیا


علیم اطہر

No comments:

Post a Comment