تو نے تو جھیلا ہے بے آب و گیاہ کا دکھ
آ مجھ سے بانٹ لے میری خیمہ گاہ کا دکھ
اعصاب کی جراحت میں محو رہنے والے
سمجھے نہیں کبھی بھی قلب و نگاہ کا دکھ
آنسو قطار میں بہنا ہی دلیل ہے کہ
دل کو لگا ہوا ہے اک بادشاہ کا دکھ
موقع پرست راہی نے راہ کھود ڈالی
شیریں کے غمزدہ کو کب تھا پناہ کا دکھ
یہ بے کواڑ گھر کی دلسوز تعزیت ہے
تم کیوں سمجھ رہے ہو شہرِ تباہ کا دکھ
کیا خوب رائیگانی میں نامور ہوا میں
سب لوگ سن رہے ہیں بختِ سیاہ کا دکھ
خوش فہمیوں میں لپٹے سمجھوتے کی زباں میں
ساگر! کہو سبھی سے اپنے نباہ کا دکھ
ساگر حضورپوری
No comments:
Post a Comment