Saturday, 22 January 2022

یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے

 یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے 

کہ دریا بس بہاؤ کے لیے ہے 

چُرانے دوں کسی سورج کو کیسے 

یہ شبنم جو الاؤ کے لیے ہے 

تِری تالی بھی کوئی فتنہ ہو گی 

تِری تھپکی بھی تاؤ کے لیے ہے 

بے مرہم ہی رہو کہ؛ یہ نمک تو 

ہمارے اپنے گھاؤ کے لیے ہے 

دھڑکنا بھی ضروری نئیں ہے اس کا 

نہ ہی یہ دل لگاؤ کے لیے ہے 

ابھی محفوظ ہیں ملاح سارے 

بھنور فی الحال ناؤ کے لیے ہے 

ہوا میں غرق ہے ہر موج ساگر

کنارا بھی کٹاؤ کے لیے ہے 


ساگر حضورپوری

No comments:

Post a Comment