سر بازار بهی خود دار ہوئے بیٹهے ہیں
ہم خود اپنے لیے دشوار ہوئے بیٹهے ہیں
وہ کسی اور کا بیمار ہوا ہے،۔ اور ہم
ایک بیمار کے بیمار ہوئے بیٹهے ہیں
موت ہی "آئی ابهی آئی" کہے جا رہی ہے
جن کو رستے کی خبر ہے، نہ پتہ منزل کا
قافلے کے وہی "سالار" ہوئے بیٹهے ہیں
کوئی پوچهے تو سہی حال کہ اک مدت سے
درد، آمادۂ "گفتار" ہوئے بیٹهے ہیں
کہیں پل بهر کے لیے بهی نہیں ٹکتی نظریں
جانے کس شے کے طلبگار ہوئے بیٹهے ہیں
لوگ ڈرتے ہیں نہ ہونے کے تصور بهر سے
اور ہم ہونے سے بے زار ہوئے بیٹهے ہیں
راجیش ریڈی
No comments:
Post a Comment