ہم مر گئے تو ایک بڑا "کام" ہو گیا
سنتے ہیں دل کا درد بہت عام ہو گیا
ایک اور شب بغیر تمہارے گزر گئی
ایک اور داستان کا "انجام" ہو گیا
مخلوق ہو نہ کس لیے خارج کہ مولوی
اس علم سے بڑا بھی لطیفہ نہیں کوئی
پختہ ہوا تو اور بھی کچھ 'خام' ہو گیا
وہ پل کہ نذرِ گردشِ ایام ہم ہوئے
وہ پل بھی نذرِ گردشِ ایام ہو گیا
راحیل کو طمع ہو تو کیا شاعری سے ہو
صاحب کا عشق ہی میں بہت نام ہو گیا
راحیل فاروق
No comments:
Post a Comment