اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں
کوئی تو بات ہے آخر تِرے دیوانے میں
فیضِ ساقی سے جو محروم ہیں مے خانے میں
جانے کیا ہم سے خطا ہو گئی انجانے میں
وقت کی بات ہے اب اس کے ترستے ہیں لب
میں نے مانا کہ عدو بھی تِرا شیدائی ہے
فرق ہوتا ہے فدا ہونے میں مر جانے میں
دلربائی کے جسے ہم نے سکھائے انداز
جان محفل ہے وہی غیر کے کاشانے میں
ہر ادا دل کے لیے دشنہ و خنجر ہے، مگر
اور ہی بات ہے ظالم تِرے شرمانے میں
نہ تسلی، نہ تشفی، نہ کوئی پیار کی بات
تجھ کو کیا ملتا ہے کافر! ہمیں تڑپانے میں
ساقیا! مے جو نہیں باقی تو تلچھٹ ہی سہی
ڈال دے نامِ خدا تھوڑی سی پیمانے میں
میری جانب سے تِرے دل میں غبار آ ہی گیا
آخرش آ ہی گیا غیر کے بھڑکانے میں
عشق کی آگ سوا کس میں ہے یہ کون کہے
شمع کے سینۂ سوزاں میں کہ پروانے میں
خار ہے جلوۂ اصنام سے دل خلدِ بریں
یا پری زادوں کا مجمع ہے پری خانے میں
خار دہلوی
No comments:
Post a Comment