Friday, 12 June 2020

کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں

کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں
جی چاہتا ہے بھاگ لوں دنیا اٹھا کے میں
ہوتی ہے نیند میں کہیں تشکیلِ خد و خال
اٹھتا ہوں اپنے خواب کا چہرہ اٹھا کے میں
بڑھنے لگا تھا نشۂ تخلیق آب و خاک
وہ چاک اٹھا کے چل دیا کوزہ اٹھا کے میں
ہے ساعتِ وصال کے ملنے پہ منحصر
کس سمت بھاگتا ہوں یہ لمحہ اٹھا کے میں
قربت پسند دل کی طبیعت میں تھا تضاد
خوش ہو رہا ہوں ہجر کا صدمہ اٹھا کے میں
اب مجھ کو اہتمام سے کیجے سپردِ خاک
اُکتا چکا ہوں جسم کا ملبہ اٹھا کے میں
اچھا بھلا تو تھا تنِ تنہا جہان میں
پچھتا رہا ہوں خلق کا بیڑا اٹھا کے میں
آؔزر مجھے مدینے سے ہجرت کا حکم تھا 
صحرا میں لے کے آ گیا خیمہ اٹھا کے میں

دلاورعلی آزر

No comments:

Post a Comment