یہ کہہ رہا ہے دل بے قرار، تیز چلو
بہت اداس ہیں زنجیر و دار، تیز چلو
جو تھک گئے ہیں انہیں گردِ راہ رہنے دو
کسی کا اب نہ کرو انتظار،۔ تیز چلو
خزاں کی شام کہاں تک رہے گی سایہ فگن
تمہی سے خوفزدہ ہیں زمین و زر والے
تمہی ہو چشمِ ستمگر پہ بار، تیز چلو
کرو خلوص و محبت کو رہنما اپنا
نہیں درست دلوں میں غبار، تیز چلو
بہت ہیں ہم میں یہاں لوگ گفتگو پیشہ
ہے ان کا صرف یہی کاروبار، تیز چلو
خرد کی سست روی سے کسے ملی منزل
جنوں ہی اب تو کرو اختیار،۔ تیز چلو
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment