سائیاں ذات ادھوری ہے
سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں ذات ادھوری ہے
سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن
سائیاں گھات ادھوری ہے
سائیاں تیرے گاؤں میں
دکھ کی سیاہ فضاؤں میں
نامانوس ہواؤں میں
لوگوں اور بلاؤں میں
قید ہوۓ ہیں مدت سے
ہم بے کار دعاؤں میں
سائیاں رنج ملال بہت
دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت
پیار محبت کال بہت
اور اسی عالم میں سائیاں
گزر گے ہیں سال بہت
سائیاں ہر سو درد بہت
موسم موسم سرد بہت
راستہ راستہ گرد بہت
چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر
تیرا اک اک فرد بہت
سائیاں تیرے شہر بہت
گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت
اس پر تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں
ہم کو ایک ہی پہر بہت
سائیاں دل مجبور بہت
روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت
اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں
تُو بھی ہم سے دور بہت
سائیاں راہیں تنگ بہت
دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت
خلقت ساری تنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہیں
بہلانے کے ڈھنگ بہت
سائیاں میرے تارے گم
رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم
انکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گے
راکھ میں ہوئے شرارے گم
سائیاں میری راتیں گم
ساون اور برساتیں گم
لب گم گشتہ باتیں گم
بینای گم، جھاتیں گم
جیون کے اس صحرا میں
سب جیتں، سب ماتیں گم
سائیاں جان بیمار ہوئی
صدموں سے دوچار ہوئی
ہر شے سے بیزار ہوئی
پریتم دل آزار ہوئی
ہر اک سپنا سنگ ہوا
ہر خواہش دیوار ہوئی
سائیاں رشتے ٹوٹ گئے
سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے
تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے جو
لٹے ہوؤں کو لوٹ گئے
سائیاں خواب اداس ہوئے
سرخ گلاب اداس ہوئے
دل بے تاب اداس ہوئے
دور سحاب اداس ہوئے
جب سے صحرا چھوڑ دیا
ریت، سراب اداس ہوئے
سائیاں تنہا شاموں میں
چنے گے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں
شامل ہوئے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں
اپنا نام نہ ناموں میں
سائیاں ویرانی کے صدقے
اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے
لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں
اپنی رحمانی کے صدقے
سائیاں میرا درد گھٹا
سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا
سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں
سائیاں اپنا آپ دِکھا
سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں میرے دولہے سائیاں
سائیاں میرے پیارے سائیاں
سائیاں میرے بیبے سائیاں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
کبھی رات اندھیری بھی ٹوٹے
کبھی صبح صادق بھی پھوٹے
کبھی چمکے تیری ضیا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
ہو رنج بہاراں جیسا بھی
ہو باد و باراں جیسا بھی
ہو جتنی تیز ہوا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
کبھی جھوٹ نہ بول سکوں مولا
کبھی کفر نہ تول سکوں مولا
میں کروں ہمیشہ وفا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
جبار قہار خدا سائیں
رحمٰن رحیم سدا سائیں
میرے بے پروا خفا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
سب پردے آپ ہٹا سائیں
سب ظلمت آپ مٹا سائیں
سب راستے آپ دِکھا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
میری تجھ سے یہی دعا سائیں
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment