Sunday, 21 June 2020

سائیاں ذات ادھوری ہے

سائیاں ذات ادھوری ہے

سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں ذات ادھوری ہے
سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے
سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن
سائیاں گھات ادھوری ہے
سائیاں تیرے گاؤں میں
دکھ کی سیاہ فضاؤں میں
نامانوس ہواؤں میں
لوگوں اور بلاؤں میں
قید ہوۓ ہیں مدت سے
ہم بے کار دعاؤں میں
سائیاں رنج ملال بہت
دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت
پیار محبت کال بہت
اور اسی عالم میں سائیاں
گزر گے ہیں سال بہت
سائیاں ہر سو درد بہت
موسم موسم سرد بہت
راستہ راستہ گرد بہت
چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر
تیرا اک اک فرد بہت
سائیاں تیرے شہر بہت
گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت
اس پر تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں
ہم کو ایک ہی پہر بہت
سائیاں دل مجبور بہت
روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت
اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں
تُو بھی ہم سے دور بہت
سائیاں راہیں تنگ بہت
دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت
خلقت ساری تنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہیں
بہلانے کے ڈھنگ بہت
سائیاں میرے تارے گم
رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم
انکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گے
راکھ میں ہوئے شرارے گم
سائیاں میری راتیں گم
ساون اور برساتیں گم
لب گم گشتہ باتیں گم
بینای گم، جھاتیں گم
جیون کے اس صحرا میں
سب جیتں، سب ماتیں گم
سائیاں جان بیمار ہوئی
صدموں سے دوچار ہوئی
ہر شے سے بیزار ہوئی
پریتم دل آزار ہوئی
ہر اک سپنا سنگ ہوا
ہر خواہش دیوار ہوئی
سائیاں رشتے ٹوٹ گئے
سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے
تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے جو
لٹے ہوؤں کو لوٹ گئے
سائیاں خواب اداس ہوئے
سرخ گلاب اداس ہوئے
دل بے تاب اداس ہوئے
دور سحاب اداس ہوئے
جب سے صحرا چھوڑ دیا
ریت، سراب اداس ہوئے
سائیاں تنہا شاموں میں
چنے گے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں
شامل ہوئے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں
اپنا نام نہ ناموں میں
سائیاں ویرانی کے صدقے
اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے
لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں
اپنی رحمانی کے صدقے
سائیاں میرا درد گھٹا
سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا
سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں
سائیاں اپنا آپ دِکھا
سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں میرے دولہے سائیاں
سائیاں میرے پیارے سائیاں
سائیاں میرے بیبے سائیاں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
کبھی رات اندھیری بھی ٹوٹے
کبھی صبح صادق بھی پھوٹے
کبھی چمکے تیری ضیا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
ہو رنج بہاراں جیسا بھی
ہو باد و باراں جیسا بھی
ہو جتنی تیز ہوا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
کبھی جھوٹ نہ بول سکوں مولا
کبھی کفر نہ تول سکوں مولا
میں کروں ہمیشہ وفا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
جبار قہار خدا سائیں
رحمٰن رحیم سدا سائیں
میرے بے پروا خفا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
سب پردے آپ ہٹا سائیں
سب ظلمت آپ مٹا سائیں
سب راستے آپ دِکھا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
میری تجھ سے یہی دعا سائیں

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment