راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں
شعلہ ہوتی ہے زباں،۔ لفظ شرر بنتا ہے
زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں
عشق مسلک کے حسابات الگ ہوتے ہیں
اک جدا سلسلۂ نفع و ضرر بنتا ہے
اپنا اظہار اسیرِ روشِ عام نہیں
جیسے کہہ دیں وہی معیارِ ہنر بنتا ہے
جلیل عالی
No comments:
Post a Comment