Sunday, 21 June 2020

سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے

راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں
شعلہ ہوتی ہے زباں،۔ لفظ شرر بنتا ہے
زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں
ایک دن میں کہاں اندازِ نظر بنتا ہے
عشق مسلک کے حسابات الگ ہوتے ہیں
اک جدا سلسلۂ نفع و ضرر بنتا ہے
اپنا اظہار اسیرِ روشِ عام نہیں
جیسے کہہ دیں وہی معیارِ ہنر بنتا ہے

جلیل عالی

No comments:

Post a Comment