مشکل زیست کو آسان بنانا چاہا
اپنے ماتھے کی لکیروں کو چھپانا چاہا
شاید ان کے ہی بدلنے سے میرے کام بنیں
لاکھ ہاتھوں کی لکیروں کو مٹانا چاہا
مجھ سے روٹھےنہ میرے چاہنے والےاک پل
غرق ہوتا گیا اتنا ہی تیری چاہت میں
جتنا یادوں سے تیری خود کو بچانا چاہا
اپنے ہی آپ کو زنداں میں اتارا میں نے
یاد اتنی ہی بڑھی،۔ جتنا بھلانا چاہا
تیرے بن ره نہ سکوں گا میں، کبھی کہہ نہ سکا
یہ حقیقت ہے!!! کئی بار بتانا چاہا
تیرا مجرم ہوں، تجھے باغی کیا ہے میں نے
کیوں تیرے دل میں محبت کو جگانا چاہا؟
ذیش! اک تم ہو، ذرا دردِ محبت نہ سہا
اس نے سو بار بھی، سراپنا کٹانا چاہا
ذیشان نور صدیقی
(ذیش)
No comments:
Post a Comment