میں اسے دیکھ رہی ہوں بڑی حیرانی سے
جو مجھے بھول گیا اس قدر "آسانی" سے
خود سے گھبرا کے یہی کہتی ہوں اوروں کی طرح
خوف آتا ہے مجھے شہر کی "ویرانی" سے
اب کسی اور سلیقے سے ستائے دنیا
تن کو ڈھانپے ہوئے پھرتے ہیں سبھی لوگ یہاں
شرم آتی ہے کسے سوچ کی "عریانی" سے
اے فلک چھوڑ دے بے یار و مددگار ہمیں
دم گھٹا جاتا ہے اب تیری" نگہبانی" سے
میں اسے خواب سمجھ سکتی ہوں لیکن عنبر
لمس جاتا نہیں اس کا مِری "پیشانی" سے
عنبرین حسیب عنبر
No comments:
Post a Comment