ارتقاء
یوں تو اس وقت کے پھیلے ہوئے سناٹے میں
رات کے سینے سے کتنے ہی گجر پھوٹے ہیں
عقل کو آج بھی ہے تشنہ لبی کا اقرار
سینکڑوں جام اٹھے، سینکڑوں دل ٹوٹے ہیں
اک شعلے کو بھی حاصل نہ ہوا رقصِ دوام
کس کو معلوم کہ اجداد پہ کیا کچھ گزری
خوں سے آلودہ ہیں اس راہ پہ قدموں کے نشاں
انہی راہوں سے پیمبر بھی گئے، ملحد بھی
انہی راہوں پہ بھٹکتا رہا بے بس انساں
زندگی اک ستائے ہوئے طائر کی طرح
پھڑپھڑاتی رہی تاریخ کی زنجیروں میں
اور سقراط و فلاطون و ارسطو کا لہو
رنگ بھرتا رہا لمحات کی تصویروں میں
کون سے جال نہ ڈالے گئے ہر مرکز پر
کیا جیالے تھے کہ جو مائلِ پرواز رہے
ابدیت کے نشاں لمحۂ نازک کے نقوش
بشریت کے لیے راز تھے اور راز رہے
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment