Tuesday 30 June 2020

کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں

کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں 
شام کے سائے بہت 'تیز قدم' آتے ہیں 
دل وہ درویش ہے جو آنکھ اٹھاتا ہی نہیں 
اس کے دروازے پہ سو اہلِ کرم آتے ہیں 
مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لیے 
کبھی سونے، کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں 
میں نے دو چار کتابیں تو پڑھی ہیں، لیکن 
شہر کے "طور طریقے" مجھے کم آتے ہیں 
خوبصورت سا کوئی حادثہ آنکھوں میں لیے 
گھر کی دہلیز پہ ڈرتے ہوئے ہم آتے ہیں

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment