Thursday 11 June 2020

معاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ہے

معاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ہے
پرانے فریم میں تصویر جانے کب بدلتی ہے
کسی کے پاس لاکھوں، تو کسی کے گھر میں فاقہ ہے
مقدر کی یہ بے جا دَین جانے کب بدلتی ہے
اگر انسان ہے محکوم تو حاکم بھی انساں ہے
حکومت آدمی کی آدمی پر، کب بدلتی ہے
رعونت اور تکبر خاکی جسموں پر نہیں جچتا
خدا جانے کہ فرعونوں کی حالت کب بدلتی ہے
جو خود اولاد والے ہیں، وه ٹھکراتے ہیں بچوں کو
خداونداں! تیرے بندوں کی حالت کب بدلتی ہے
کہیں نیلام عزت کے، کھلے بندوں بھی ہوتے ہیں
جو حالت دیکھی نہ جاۓ، وه حالت کب بدلتی ہے
صبح اور شام کو چہرے بدل جاتے ہیں لوگوں کے
میرے دل میں جو صورت ہے، نہ کب جانے بدلتی ہے
قیامت خیز لمحوں میں بھلا زنده ہیں کیسے ذیش؟
انہیں جینے کی عادت تھی، یہ عادت کب بدلتی ہے

ذیشان نور صدیقی
(ذیش)

No comments:

Post a Comment