معاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ہے
پرانے فریم میں تصویر جانے کب بدلتی ہے
کسی کے پاس لاکھوں، تو کسی کے گھر میں فاقہ ہے
مقدر کی یہ بے جا دَین جانے کب بدلتی ہے
اگر انسان ہے محکوم تو حاکم بھی انساں ہے
رعونت اور تکبر خاکی جسموں پر نہیں جچتا
خدا جانے کہ فرعونوں کی حالت کب بدلتی ہے
جو خود اولاد والے ہیں، وه ٹھکراتے ہیں بچوں کو
خداونداں! تیرے بندوں کی حالت کب بدلتی ہے
کہیں نیلام عزت کے، کھلے بندوں بھی ہوتے ہیں
جو حالت دیکھی نہ جاۓ، وه حالت کب بدلتی ہے
صبح اور شام کو چہرے بدل جاتے ہیں لوگوں کے
میرے دل میں جو صورت ہے، نہ کب جانے بدلتی ہے
قیامت خیز لمحوں میں بھلا زنده ہیں کیسے ذیش؟
انہیں جینے کی عادت تھی، یہ عادت کب بدلتی ہے
ذیشان نور صدیقی
(ذیش)
(ذیش)
No comments:
Post a Comment