کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے، گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی، اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے،۔ دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی زیر و زبر رکھتے تھے جو روحِ ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مارِ سیاہ، برسیں گی فلک سے شمشیریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو! کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹیں زنجیریں
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment