تُو میرے ضبط سے ڈر تو نہیں گیا مِرے دوست
کہ آج ٹھیک سے لڑ بھی نہیں سکا مرے دوست
تُو آج کون سے دکھ میں ہے، کیا ہوا ہے تجھے؟
میں رو رہا ہوں تُو ہنس بھی نہیں رہا مرے دوست
وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا "مری محبت" کا
یہ بِچھو وِچھو بھلا کیوں نہ ان سے ڈرتے پھریں
کہ جن سے خوفزدہ ہو اک اژدھا مرے دوست
جو بچ گئی ہے، وہ غاروں میں جا گزاریں کہیں
یہ دور اپنے مطابق نہیں رہا مرے دوست
کہ میں تو وحشی ہوں مجھ کو نہ سونپ میرا وجود
تُو جا رہا ہے تو مجھ کو جلاتا جا مرے دوست
میں دشمنوں کو ہمیشہ دعا سے مارتا ہوں
سبھی کی خیر، تمہارا بھی ہو بھلا مرے دوست
افکار علوی
No comments:
Post a Comment