Monday 15 June 2020

اک سمندر ہے سرمئی اور میں

اک سمندر ہے سرمئی اور میں
خواب ہے، موج زندگی اور میں
اک طرف ہے صدائے کُن فیکون
اک طرف گہری خامشی اور میں
روشنی، انتظار، کھڑکی، تم
چاندنی شب، تِری گلی اور میں
جی رہے ہیں کئی زمانوں سے
ایک کمرے میں بے حسی اور میں
اک طرف رہ گیا زمانہ،۔ اور
اک طرف خواب کی پری اور میں
جس طرف پھول کھلتے جاتے تھے
اس طرف زندگی رہی اور میں
ہو گئے تیرے انتظار میں خاک
اک تمنا ہری بھری اور میں

ذیشان مرتضیٰ

No comments:

Post a Comment