ہر اک چراغ سے بڑھ کر جدا چراغ بنے
یہ کیا بعید، کہ کل کو "ہوا" چراغ بنے
جو میرے ساتھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے
اب اس کے بعد بھلا کوئی کیا چراغ بنے
یہ جنگ فیصلہ کن موڑ پر ہے اس سے کہو
ہمیں عزیز ہے خوشبو بھی اور روشنی بھی
سو چاہتے ہی کوئی پھول کا چراغ بنے
یہ نور بارِ امانت تھا، سو میں ڈھوتا رہا
میں بجھ گیا تو مِرے نقشِ پا چراغ بنے
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment