Sunday 28 June 2020

ہر اک چراغ سے بڑھ کر جدا چراغ بنے

ہر اک چراغ سے بڑھ کر جدا چراغ بنے
یہ کیا بعید، کہ کل کو "ہوا" چراغ بنے
جو میرے ساتھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے
اب اس کے بعد بھلا کوئی کیا چراغ بنے
یہ جنگ فیصلہ کن موڑ پر ہے اس سے کہو
ہوا کی صف میں چلا جائے، یا چراغ بنے
ہمیں عزیز ہے خوشبو بھی اور روشنی بھی
سو چاہتے ہی کوئی پھول کا چراغ بنے
یہ نور بارِ امانت تھا، سو میں ڈھوتا رہا
میں بجھ گیا تو مِرے نقشِ پا چراغ بنے

احمد فرہاد

No comments:

Post a Comment