Tuesday 30 June 2020

جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا

جب تک نگارِ دشت کا سینہ دکھا نہ تھا
صحرا میں کوئی "لالۂ صحرا" کھلا نہ تھا
دو چھیلیں اس کی آنکھوں میں لہرا کے سو گئیں
اس وقت میری عمر کا "دریا چڑھا" نہ تھا
جاگی نہ تھیں نسوں میں تمنا کی ناگنیں
اس گندمی شراب کو جب تک چکھا نہ تھا
اک بے وفا کے سامنے آنسو بہاتے ہم
اتنا ہماری آنکھ کا "پانی مرا" نہ تھا
دو کالے ہونٹ جام سمجھ کے چڑھا گئے
وہ آب جس سے میں نے وضو تک کیا نہ تھا
وہ کالی آنکھیں شہر میں مشہور تھیں بہت
تب ان پہ موٹے شیشوں کا چشمہ چڑھا نہ تھا
میں صاحبِ غزل تھا حسینوں کی بزم میں
سر پہ گھنیرے بال تھے ماتھا کھلا نہ تھا
،
بشیر بدر

No comments:

Post a Comment