بدن کو کاٹتا ہے دکھ، ملال نوچتے ہیں
یہ درد بھیڑیے ہیں اور کھال نوچتے ہیں
عذابِ ہجر میں آنکھیں اجڑ گئیں جن کی
وہ بے بسی سے اپنے اپنے بال نوچتے ہیں
یہاں کے لوگوں کی عادت ہے کوفیوں جیسی
جواز کون سا دوں گی بچھڑ کے لوگوں کو
تمہارے بعد تو سب کے سوال نوچتے ہیں
امیرِ شہر!! یہ ہے عندیہ بغاوت کا
غلام ناخنوں سے اپنے جال نوچتے ہیں
تمہاری یاد دل میں چٹکیاں یوں لیتی ہے
کہ جیسے پیار سے بچوں کے گال نوچتے ہیں
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment