Monday 29 June 2020

یہ غنیمت ہے وہ دروازہ کھلا ملتا ہے

یہ غنیمت ہے وہ دروازہ کھلا ملتا ہے
کچھ تو سائل کو بصد شوق و رضا ملتا ہے
مانگنے والے نے مانگا ہی نہیں تھا دل سے
ورنہ اک اشک کی دوری پہ خدا ملتا ہے
رائیگانی میں بھی حاصل کی جھلک ہوتی ہے
کچھ نہ ملنے کے نتیجے میں خلا ملتا ہے
کاش اس مجمعِ خلقت میں ہمیں بھی کوئی شخص
یوں ملے جیسے کوئی بچھڑا ہوا ملتا ہے
دیکھ کر ہاتھ مرا مجھ کو بتایا گیا تھا
ان لکیروں میں فقط ہجر لکھا ملتا ہے
شکر تو بنتا ہے تاؔثیر ترا رب کے حضور
تیرے ہونٹوں کو اگر حرفِ دعا ملتا ہے

نثار محمود تاثیر

No comments:

Post a Comment