اور بھی سخت ذرا اس کی سزا ہو جائے
وہ مِری قید سے چاہے تو رہا ہو جائے
جانے کس وقت یہاں اذنِ قضا ہو جائے
زندگی فرض کرو ہے، تو ادا ہو جائے
مجھ سے وہ ترکِ تعلق کے طریقے پوچھے
خوف یہ ہے کہ محبت کا جواں سال غرور
ایک پل میں نہ کہیں رزقِ انا ہو جائے
قریۂ ہجر میں ملتے ہوئے لوگو! سوچو
جانے کب کون، کہاں کس سے جدا ہو جائے
عین ممکن ہے کہ معیارِ بشر سے گر کر
اپنی دانست میں انسان خدا ہو جائے
سید مبارک شاہ
No comments:
Post a Comment