Tuesday, 30 June 2020

اور بھی سخت ذرا اس کی سزا ہو جائے

اور بھی سخت ذرا اس کی سزا ہو جائے
وہ مِری قید سے چاہے تو رہا ہو جائے
جانے کس وقت یہاں اذنِ قضا ہو جائے
زندگی فرض کرو ہے، تو ادا ہو جائے
مجھ سے وہ ترکِ تعلق کے طریقے پوچھے
میں جو خاموش رہوں، اور خفا ہو جائے
خوف یہ ہے کہ محبت کا جواں سال غرور
ایک پل میں نہ کہیں رزقِ انا ہو جائے
قریۂ ہجر میں ملتے ہوئے لوگو! سوچو
جانے کب کون، کہاں کس سے جدا ہو جائے
عین ممکن ہے کہ معیارِ بشر سے گر کر
اپنی دانست میں انسان خدا ہو جائے

سید مبارک شاہ

No comments:

Post a Comment