آنکھ کے نِیر میں نہیں رہے ہم
غم کی تشہیر میں نہیں رہے ہم
ہم اسے سانحہ سمجھتے ہیں
اپنی تصویر میں نہیں رہے ہم
خواب میں رکھ کے کیا کرو گے ہمیں؟
کس کے آنسو یہاں تک آئے ہیں
کس کی تقدیر میں نہیں رہے ہم
اس کے لکھے سے اٹھ چکا ہے اثر
جب سے تحریر میں نہیں رہے ہم
اب بھی رانجھا بنے ہوئے ہیں مگر
قصۂ ہیر میں نہیں رہے ہم
اس نے چھوڑا کمان سے ہمیں زین
اور پھر تیر میں نہیں رہے ہم
زین شکیل
No comments:
Post a Comment