Friday 19 June 2020

اونچا مری آواز کو دیوار نہ کر دے

پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے
اونچا مِری آواز کو دیوار نہ کر دے
مجبور سخن کرتا ہے کیوں مجھ کو زمانہ
لہجہ مرے جذبات کا اظہار نہ کر دے
زنجیر سمجھ کر مجھے توڑا تو ہے تُو نے
اب تجھ کو پریشاں مِری جھنکار نہ کر دے
چلتا ہوں تو پڑتے ہیں قدم میرے ہوا پر
ڈرتا ہوں ہوا چلنے سے انکار نہ کر دے
رہ جاؤں نہ میں اپنے ہی قدموں سے کچل کر
پامال مجھے خود مِری رفتار نہ کر دے
میں خود کو مٹا کر تِرا شہکار بنا ہوں
نیلام مجھے تُو سر بازار نہ کر دے
ہر سانس نئے زخم لگاتی ہے مظفر
ٹکڑے مِرے اک روز یہ تلوار نہ کر دے

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment