پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے
اونچا مِری آواز کو دیوار نہ کر دے
مجبور سخن کرتا ہے کیوں مجھ کو زمانہ
لہجہ مرے جذبات کا اظہار نہ کر دے
زنجیر سمجھ کر مجھے توڑا تو ہے تُو نے
چلتا ہوں تو پڑتے ہیں قدم میرے ہوا پر
ڈرتا ہوں ہوا چلنے سے انکار نہ کر دے
رہ جاؤں نہ میں اپنے ہی قدموں سے کچل کر
پامال مجھے خود مِری رفتار نہ کر دے
میں خود کو مٹا کر تِرا شہکار بنا ہوں
نیلام مجھے تُو سر بازار نہ کر دے
ہر سانس نئے زخم لگاتی ہے مظفر
ٹکڑے مِرے اک روز یہ تلوار نہ کر دے
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment