ہم ایسے لوگ جب باغوں کے پھول ہو جائیں
اڑائیں گرد یہ موسم تو دھول ہو جائیں
جنہیں ہم عشق کی معراج کہنے لگتے ہیں
وہ لمحے بعد میں صدیوں کی بھول ہو جائیں
ہمیں تو یہ ہنسی ویسے بھی راس کم کم ہے
کسی کے دل کو دُکھا کر نماز پڑھتے ہو
خدا کرے یہ نمازیں قبول ہو جائیں
تمہارے نام لکھی چٹھیاں تمہارے بعد
نجانے گاؤں میں کس کو وصول ہو جائیں
مرے مزاج میں ہے سر کشی سو توڑوں گی
رواج ہوں بھلے کومل اصول ہو جائیں
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment