Saturday 27 June 2020

میں اس زنداں کا قیدی ہوں

مرثیۂ مرگِ ضمیر

زندانِ ضمیر

میں اس زنداں کا قیدی ہوں
نہیں جس کا کوئی ثانی
نہ یہ مینارِ لندن ہے
نہ اس کا کالے پانی سے تعلق ہے
کہ جو زندانیوں کے فرقِ سرکش پر
ہمیشہ کے لیے مہرِ ندامت ثبت کرتا ہے
نہ یہ ہے کوٹ لکھپت اور نہ یہ ہے قصرِ آغا خاں
یہ یہ نینی نہ یہ تیمارکے چیلوں کا ہم سر ہے
بدیسی طاقتوں نے ظلم کی روداد یوں لکھی
کہ اس کے زخم اب رِستے ہی رہتے ہیں
ادھوری داستاں ہے اور تصادم اب بھی جاری ہے

فضا اعظمی

No comments:

Post a Comment