Friday, 19 June 2020

جب سے زندانی ہوا دل گردش تقدیر کا

جب سے زندانی ہوا دل گردشِ تقدیر کا
روز بڑھ جاتا ہے اک حلقہ مری زنجیر کا
میرے حصے میں کہاں تھیں عجلتوں کی منزلیں
میرے قدموں کو سدا رستہ ملا "تاخیر" کا
کس لیے بربادیوں کا دل کو ہے اتنا ملال
اور کیا انداز ہو "خمیازۂ تعمیر" کا
خونِ دل جن کی گواہی میں ہوا نذرِ وفا
رنگ تو وہ اڑ گئے، اب کیا کروں تصویر کا
میں نے سمجھا تیری چاہت کو فقط انعامِ زیست
مجھ کو اندازہ نہ تھا، اس جرم، اس تعزیر کا
ایک لب تک بھی نہ پہنچی جو دعا تھی مستجاب
کس قدر چرچا ہوا ہے "آہِ بے تاثیر" کا
لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے
سچ تعارف ہے مِرے ہر شعر، ہر تحریر کا

عنبرین حسیب عنبر

No comments:

Post a Comment