Monday, 29 June 2020

ہار سے بھی امید لیتے ہیں

ہار سے بھی امید لیتے ہیں
جیتنے کی نوید لیتے ہیں 
زندگی زہر بھی ہے شہد بھی ہے
ہم پہ ہے کیا کشید لیتے ہیں
کتنے احساس لفظ ہیں رکھتے
ہم ہی مطلب شدید لیتے ہیں
خود کو مہنگا کیا بہت، لیکن
لوگ پھر بھی خرید لیتے ہیں
غم گساری نہ تُو سمجھ لینا
سب یہ مخبر ہیں، بھید لیتے ہیں
دل ہے بے کار اب یہ سینے میں
بیچ کر کچھ مفید لیتے ہیں
یہ جو غم ہیں ہیں اک نشہ ابرک
ان گِنت ہیں، مزید لیتے ہیں

 اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment