ہار سے بھی امید لیتے ہیں
جیتنے کی نوید لیتے ہیں
زندگی زہر بھی ہے شہد بھی ہے
ہم پہ ہے کیا کشید لیتے ہیں
کتنے احساس لفظ ہیں رکھتے
خود کو مہنگا کیا بہت، لیکن
لوگ پھر بھی خرید لیتے ہیں
غم گساری نہ تُو سمجھ لینا
سب یہ مخبر ہیں، بھید لیتے ہیں
دل ہے بے کار اب یہ سینے میں
بیچ کر کچھ مفید لیتے ہیں
یہ جو غم ہیں ہیں اک نشہ ابرک
ان گِنت ہیں، مزید لیتے ہیں
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment