Sunday 28 June 2020

جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انہیں کا غم ہے

جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انہیں کا غم ہے
تمہیں شعر کی پڑی ہے، مجھے "آدمی" کا غم ہے
جسے اپنے خوں سے پالا،۔ وہ حسیں سجل اجالا
وہی قتل ہو رہا ہے،۔ میری جاں اسی کا غم ہے
جسے رات کہہ چکا ہوں اسے صبح کیسے کہہ دوں
یہاں پاسِ لفظ کس کو؟، یہ فقط مجھی کا غم ہے
میں ہوں شاعرِ زمانہ،۔ مرا اور ہے فسانہ
تمہیں فکر اپنے گھر کی مجھے ہر گلی کا غم ہے
رخِ مفلساں پہ جالب ہیں ازل سے جس کے سائے
اسی بے بسی کا غم تھا،۔ اسی بے بسی کا غم ہے

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment