Thursday 18 June 2020

سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے

سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے
مجھ میں پھیلنے لگ جاتی ہے خوشبو اپنی مرضی سے
ہر منظر کو مجمع میں سے یوں اٹھ اٹھ کر دیکھتے ہیں
ہو سکتا ہے شہرت پا لیں ہم اپنی دلچسپی سے
ان آنکھوں سے دو اک آنسو ٹپکے ہوں تو یاد نہیں
ہم نے اپنا وقت گزارا ہر ممکن خاموشی سے
برف جمی ہے منزل منزل رستے آتشدان میں ہیں
بیٹھا راکھ کرید رہا ہوں میں اپنی بیساکھی سے
خوابوں کے خوشحال پرندے سر پر یوں منڈلاتے ہیں
دور سے پہچانے جاتے ہیں ہم اپنی بے خوابی سے
دل سے نکالے جا سکتے ہیں خوف بھی اور خرابے بھی
لیکن ازل ابد کو عادل کون نکالے بستی سے

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment