Sunday, 28 June 2020

جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا

جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا
بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی
یہ بھی اک پیرایہ تھا "سمجھانے" کا
صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھول
دیکھ لیا "خمیازہ" پیاس بجھانے کا؟
بنجر مٹی پر بھی برس اے ابرِ کرم
خاک کا ہر ذرہ مقروض ہے دانے کا
طالب! اس کو پانا تو دشوار نہ تھا
اندیشہ تھا خود اپنے کھو جانے کا

طالب جوہری

No comments:

Post a Comment