جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا
بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی
یہ بھی اک پیرایہ تھا "سمجھانے" کا
صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھول
بنجر مٹی پر بھی برس اے ابرِ کرم
خاک کا ہر ذرہ مقروض ہے دانے کا
طالب! اس کو پانا تو دشوار نہ تھا
اندیشہ تھا خود اپنے کھو جانے کا
طالب جوہری
No comments:
Post a Comment