آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے
ہر شخص جیسے میرے قبیلے کا فرد ہے
جب میں نہ تھا تو میری زمانے میں گونج تھی
اب میں ہوں، اور سارے زمانے کا درد ہے
سورج میں آج جتنی تپش ہے، کبھی نہ تھی
ہم کس سفر پہ نکلے کہ شکلیں بدل گئیں
چہرے پہ جس کے دیکھو مسافت کی گرد ہے
چلتا رہے جو آبلہ پائی کے باوجود
منزل کا مستحق وہی صحرا نورد ہے
ایسا نہ ہو سحر میری بینائی چھین لے
بیداریوں سے اب مِری آنکھوں میں درد ہے
بکھرا ہوا ہوں خواہش و حسرت کے درمیاں
جیسے مِرا وجود ابھی فرد فرد ہے
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment