Wednesday, 10 June 2020

آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے

آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے
ہر شخص جیسے میرے قبیلے کا فرد ہے
جب میں نہ تھا تو میری زمانے میں گونج تھی
اب میں ہوں، اور سارے زمانے کا درد ہے
سورج میں آج جتنی تپش ہے، کبھی نہ تھی
کیا کیجئے کہ خوں ہی رگ و پے میں سرد ہے
ہم کس سفر پہ نکلے کہ شکلیں بدل گئیں
چہرے پہ جس کے دیکھو مسافت کی گرد ہے
چلتا رہے جو آبلہ پائی کے باوجود
منزل کا مستحق وہی صحرا نورد ہے
ایسا نہ ہو سحر میری بینائی چھین لے
بیداریوں سے اب مِری آنکھوں میں درد ہے
بکھرا ہوا ہوں خواہش و حسرت کے درمیاں
جیسے مِرا وجود ابھی فرد فرد ہے

مرتضیٰ برلاس

No comments:

Post a Comment